Afghan Refugees and the Left in Sindh [Urdu]
افغان مہاجرین اور پناہگزین کا سوال سندھ کے بائیں بازو، ترقی پسند اور قوم پرست تنظیموں کے لئے سوالیہ نشان ہے
یہ مظمون دسمبر ۲۰۲۳ میں لکھا گیا جب پاکستانی ریاست کی طرف سے افغان مہاجرین اور پناہگزینوں کو ملک بدر کرنے کی بھرپور مہم جاری تھی۔ قارئین اس کا انگریزی ترجمہ اس لنک پر پڑھ سکتے ہیں۔ اس وقت سندھ کے بائیں بازو اور قوم پرست حلقوں میں اس موضوع پر پرزور بحث چل رہی تھی۔ اس مضمون کی بنیاد پر مصنف اور کرٹکل اسٹڈیز فورم اور پورھیت مظاحمت تحریک کے کامریڈز کے درمیان مزید مکالمہ بھی ہوا۔
۔۔۔۔
پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان میں افغان مہاجرین کے معاملے پر زور و شور سے سیاست جاری ہے۔ ریاست پاکستان نے جدھر ملک میں مقیم لگ بھگ پونے دو ملین سرکاری طور پر غیر درج شدہ افغانوں کو واپس افغانستان بھیجنے کا فیصلہ کیا ، ادھر ہی آرمی چیف سے لیکر وزیر اعظم اور وزارتِ خارجہ تک سب نے اس پالیسی کی جوش و خروش سے وکالت کی۔ ادھر ہی اس معاملے پر ترقی پسند حلقوں میں بھی بحث چھڑ گئی، خاص کر کے صوبہ سندھ کے بایئں بازو اور قوم پرست رجحانات میں کہیں ان اقدام کا خیر مقدم کیا گیا تو کہیں اس کو محتاط طریقے سے اور کیفیتِ گو مگو میں ہی سہی، لیکن حمایت ضرور کی گئی۔ خاص طور پر سندھ میں اس پورے معاملے میں ٹھوس تجزیئے اور وسیع تر ترقی پسندانہ، منصفانہ اور انقلابی حکمتِ عملی پر جوش و جزبات بھاری رہے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کے سیاست میں جوش اور جزبات کی کوئی جگہ نہیں، لیکن اگر جزبہ کی رہنمائی ٹھوس تاریخی و جدلیاتی تجزیہ نہ کرے تو اس کے نتائج اکثر نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔
یوں اس مضمون میں ہماری کوشش ہو گی کے سندھ میں افغان مہاجرین کے معاملے کو اس کے ٹھوس تاریخی اور ساختیاتی (اسٹرکچرل) سیاق و سباق میں رکھا جائے۔ اس امید میں کے ایسے ٹھوس تجزئیے کے ذرئیعے ہی ہم حقیقی طور پر ترقی پسندانہ اور عوام دوست لائحہ عمل کا احاطہ کر سکتے ہیں۔ اس زمرے میں ہمیں اس معاملے کے مندرجہ ذیل پہلوئوں کا جائزہ لینا ہو گا: اشرافیہ اور ریاستِ پاکستان کا حالیہ بحران؛ قومی سوال کی اہمیت؛ افغان مہاجرین کے حوالے سے کچھ ٹھوس حقائق؛ ریاست پاکستان اور اس سے جڑے معاشی و تزویراتی رجحانات؛ اور سندھ میں دانشوروں اور روشن خیال حلقوں کا معروضی کردار۔
سماجی بحران، نطریاتی یلغار
یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ پاکستانی ریاست اور اشرافیہ اس وقت پچھلی نصف صدی کے سب سے گہرے اور سنجیدہ بحران سے گزر رہی ہے۔ سیاسی لیول پر اشرافیہ و مقتدرہ کا آخری مہرہ یعنی عمران خان اب مقتدرہ سے آہنی تضاد میں ہے۔ معاشی لیول پر ایک طرف پر کمر توڑ مہنگائی ہے تو اس سے بھی زیادو گہرے لیول پر ملکی معیشت پر عالمی مالیاتی اداروں اور بیرونی ممالک کا نا قابلِ تلافی قرض ہے۔
اس سے بھی بڑھ کر حکمران گٹھ جوڑھ کا پچھلی کم از کم نصف صدی کا آزمودہ نسخہ، یعنی کہ سامراجی اور ذیلِ سامراجی قوتوں کی جنگیں لڑ کر زرِمبادلہ کمانا، اب مفلوج و ناکام ہو چکا ہے۔ یوں جس طرح دہشتگردی کے خلاف جنگ سے امریکی استعمار کی دلچسپیاں دوسری طرف متوجہ ہوئی ہیں، پاکستانی اشرافیہ کو ملنے والی عسکری و سویلین امداد میں خاطر خواہ کمی آئی ہے [۲۰۱۰۔۲۰۱۱ میں تقریباً تین بلین ڈالر اور اب ایک بلین ڈالر سالانہ کے قریب]، ادھر ہی بیرونی قرضوں کی برھتی ادائیگی [۲۰۲۱میں تقریباً ۱۲ بلین ڈالر اور اگلے کچھ سالوں میں سالانہ ۲۰ بلین ڈالر کے قریب] نے ریاستی خزانے کو دیوالیے کی طرف دھکیلہ ہے۔ بلکہ پاکستانی حکمرانوں نے ان افغان باشندوں پر جو سرکاری دستاویزات کے بغیر افغانستان کے علاوہ کسی اور ملک جانے کے منتظر ہیں (جیسے کہ امریکہ، برطانیہ وغیرہ)، فی بندہ ۸۰۰ ڈالر جرمانہ بھی عائد کر دیا ہے! یوں بے دخل لوگوں کو مزید بے دخل کرتے ہوئےبھی ان سے مال ہتھیانے کے نت نئے منصوبے ہیں ۔
دوسری طرف عسکری قیادت جس نے افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد افغان طالبان کو اقتدار میں لانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، اس کارِ خیر کے اپنی توقعات کے مطابق ثمر نہیں اٹھا سکی۔ یوں جدھر پاکستانی حکمرانوں کو امید یہ تھی کے ان کے احسان مند افغان طالبان پاکستانی طالبان کو زیرِ لگام لانے میں مدد دیں گے، ادھر الٹا پاکستانی طالبان اور دیگر مذہبی انتہا پسندوں نےافغان طالبان کی کامیابی سے مزید شے پکڑی ہے۔ اور یوں پاکستان کے اندر ان کی کاروایئوں میں خاطر خواہ اضافے کے مد نظر، پاکستانی حکمران افغان مقتدرہ پر دباوٗ ڈالنے کے نت نئے حربے ڈھونڈ رہے ہیں۔
یوں افغان مہاجرین (بشمول پاکستان ہی میں پیدا ہوے اور پلے بڑھے ان کی کئی نسلوں) کی واپسی کا معاملہ اس وسیع تر سماجی و معاشی بحران اور پاکستانی ریاست کی خارجہ پالیسیوں میں بھڑکیوں اور بیوقوفیوں کے درمیان ایک سیاسی فٹبال کا کردار ادا کر رہا ہے۔ بلکہ جیسے کے ڈاکٹر ثنا علیمیا اپنی حالیہ کتاب "پناہ گزینوں کے شہر" ("ریفیوجی سٹیز") میں بتاتی ہیں، پچھلی ایک دہائی سے پاکستانی ریاست کا افغان مہاجرین کی طرف رویہ کچھ مبہم سا رہا ہے، اور افغان حکومت سے تنازعات کی بنیاد پر ان کو براہ راست اور بالواسطہ طریقوں سے پاکستان سے باہر دھکیلہ گیا ہے ۔ یوں۲۰۰۵ میں اپنے عروج پر جدھر پاکستان میں کل ۸ملین افغان باشندے مقیم تھے، آج یہ اس سے آدھے سے بھی کم یعنی کے کل ساڑھے تین ملین کے آس پاس ہیں، جن میں سے تقریباً آدھے رجسٹرڈ اور باقی آدھے غیر درج شدہ یا "غیر قانونی" ہیں۔ یوں افغان مہاجرین کو واپس افغانستان بھیجنے کی پالیسی اور اس حوالے سے پھرتیاں،پروپیگینڈہ اور نطریاتی یلغار ایک تاریخی تسلسل کا حصہ بھی ہیں اور ساتھ ساتھ حالیہ ریاستی، معاشی اور خارجی نا کامیوں پر سے عوامی شعور ، مایوسی و غصے کی توجہ ہٹانے کی کوشش بھی ۔
لیکن ان لگ بھگ قریب تر بحرانوں کے ساتھ ساتھ افغان مہاجرین کے حوالے سے ریاستی پالیسی و پروپیگینڈہ عوامی لیول پر عمومی شعور اور عام فہم کے پہلوئوں سے بھی جڑتا ہے۔ خاص کر سندھ اور اس کے قومی سوال کے حوالے سے اس پہلو کو سنجیدگی سے سمجھنا بہت اہم ہے۔
قومی سوال: اس کی حقیقت و اہمیت
سرمایہ داری نظام، اس سے کلیدی طور پر جڑے نو آبادیاتی و سامراجی رجحانات، اور سماجی و جغرافئیائی ناہمواری اپنے بطن سے قومی سوال کو پیدا کرتے ہیں۔ سرمایہ داری سے جڑی علاقائی اور طاقت کی بنیاد پر درجہ بندی، نظام کا ریاستی سٹڑکچر پر انحصار، اور اس سے جڑی معاشی ثقافتی و جغرافیائی تبدیلیاں، شعوری و سیاسی لیول پر قومی تشخص اور عمل کو ممکنہ بناتی ہیں، بلکہ اکثر تقویت بھی دیتی ہیں۔ یوں طاقت و اختیار کے معاملے میں ناہمواری اور درجہ بندی کے ذریعئے پھیلنے والے اس نظام میں قومی سوالات اور شعور کو محض تصوراتی خناس، کسی مخصوص طبقے کی سازش یا مغالطیاتی شعور ("فالس کانشوسنس") قرار دیا جا سکتا۔ خاص طور پر پاکستان جیسے بعد از نو آبادیاتی اور کثیر القومی ملک میں کوئی بھی ترقی پسند اور عوام دوست سیاست اس سوال کی مربوطیت، اہمیت اور حقیقت کو ٹھوس طریقے سے سمجھے بغیر محض ایک تجریدی اور تصوراتی سیاست ہی ہو سکتی ہے۔
عمومی پاکستان اور خاص کر سندھ میں قومی جبر و تشخص کا سوال قوتِ محنت، زبان اور زمین کی درجہ بندیوں اور بے دخلیوں سے جڑا ہوا ہے۔ یوں پاکستان میں محنت کشوں کے درمیان لسانی و علاقائی فرق اکثر پیشہ ورانہ ،علاقائی و شہری دیہی پیٹرنز کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے، مثال کے طور پر کراچی میں جدھر پشتون محنت کش اکثر کنسٹرکشن اور ٹرانسپورٹ شعبوں میں پائے جاتے ہیں، اسی طرح تاریخی طور پر اردو سپیکنگ مہاجرین نے نسبتاً ہنرمند اور ٹیکنکل پوزیشنز پر نوکریاں کی ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کے یہ پیشہ ورانہ و شعبہ جاتی تفریق کوئی اٹل حقیقت نہیں، لیکن عمومی و تاریخی رجحانات ہیں۔ اسی طرح ریاستِ پاکستان میں قومی زبانوں اور سندھ میں خاص طور پر سندھی زبان کی اہمیت کو دانستہ طور پر گھٹانا اور اس کے مقابلے میں اردو کو فروغ دینے کی تاریخ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
زمین کے معاملے میں بھی تاریخی طور پر بے دخلیوں اور محرومیوں کا بوجھ سندھی کسانوں اور محنت کشوں نے بھگتا ہے، جب کے فائدہ اشرافیہ کے مختلف حلقوں نے اٹھایا۔ یوں جدھر ۴۷کے بٹوارے کے بعد ہندوستان ہجرت کرتے ہوئے باشندوں کی دو ملین ایکڑ زمین سندھی جاگیرداروں اور پاکستان آئے مہاجرین میں تقسیم کی گئی (نا کہ بے زمین سندھی مزارعوں اور محنت کشوں میں)، ادھر ۵۰ اور ۶۰ کی دہائی میں بیراجوں کے تحت زراعت کے زمرے میں لائی گئی زمین کو سول اور عسکری افسر شاہی کے غیر سندھی ممبران میں بانٹا گیا۔ حالیہ تاریخ میں رینجرز کا دریائے سندھ کی ڈیلٹائی زمین پر قبضہ اور اب پاکستانی فوج کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر ۵۰،۰۰۰ ایکڑ زمین ہتھیانہ زمین کے گرد محرومی و بے دخلی کی اسی تاریخ کا تسلسل ہے۔
نو آبادیاتی طرزِ حکمرانی اور تاریخی اور جاری شدہ ثقافتی و معاشی نا ہمواری ہی وہ بنیادیں ہیں جن کے تحت سندھ میں قومی سوال کی معروضی و موضوعی ساخت اور اس کی جذباتی و شعوری گہرائی کو سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا احاطہ کرنا بھی انتہائی اہم ہے کے قومی سوال کے مختلف اظہار ات ایک مجموعی زبان میں کن مخصوص گروہی مفادات کی نمائندگی کر رہے ہیں۔یوں کیا قومی سوال اور شعور کو ایسی محدود بنیادوں پر استوار کیا جا رہا جو ایکائی کے نام پر سماجی سوالات کو دبا ہی نہیں رہے بلکے اشرافیائی اور مقتدرہ حلقوں سے جا کر مل رہے ہیں۔ یا اس کے بر عکس قوم اور اس کے تشخص کی تعریف ایسے انداز میں کی جا رہی ہے جو پسی ہوئی پرتوں کے مفادات کو اولین رکھے۔ اشرافیائی قوم پرستی اور عوامی قومی شعور میں فرق بر قرار رکھنا اور اس کو عمل کے ذریعئے استوار کرنا ہی ایک ترقی پسند اور عوام دوست مستقبل کا ضامن ہے۔
قومی شعور و جذبے کی معروضیت اور اس میں مختلف رجحانات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اب ہم سندھ اور خاص طور پر اس کے ترقی پسند حلقوں میں افغان معاملے کو ٹھوس بنیادوں پر سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
سندھ میں افغان مہاجرین: حقائق، مغالطے اور سیاست
جیسے کے اوپر ذکر کیا گیا ہے، صوبہٗ سندھ میں اکثر قوم پرست اور ترقی پسند تنظیموں نے افغان مہاجرین کو واپس مادرِ وطن بھیجنے کے ریاستی فیصلے کو براہ راست یا بالواسطہ سراہا ہے۔ اس پر جوش یا مبہہم حمایت کے لئے مختلف جواز دیئے جاتے ہیں: جیسے کہ افغان مہاجرین کی ہجرت سے سندھ میں ڈیموگرافک تبدیلی کا خدشہ، سندھ کے وسائل سے سندھ باسیوں کی محرومی اور ان پر غیر مقامی لوگوں کا قبضہ، افغان مہاجرین کا سندھ کے وسائل پر بوجھ ہونا، یا یہ کے افغان مہاجرین ریاستِ پاکستان کی سندھ میں ڈیموگرافک تبدیلی کی ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہیں۔ لیکن ان بیان کئے گئے اکثر جواز کی بنیاد ٹھوس حقائق میں کم اور جزوی مشاہدات اور مغالطوں پر مبنی زیادہ ہے۔
مثال کے طور پر سندھ میں وسائل اور سماجی ترقی کے حوالے سے محرومی و عدم مساوات کا معاملہ ہی لے لیجئیے۔جیسے کے اوپر بیان کیا گیا کے پورے پاکستان میں اپنے جوبن پر بھی یعنی۲۰۰۵ میں کل ملا کر کچھ آٹھ ملین افغان آباد تھے، جب کے پچھلی ڈیڑھ دہائی میں پاکستانی ریاست کی گرم تھنڈی مخالفانہ پالیسیوں کے تحت ان میں سے اب آدھے سے بھی کم (یعنی کے ساڑھے تین ملین) پاکستان میں رہ گئے ہیں۔ بلکہ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی ۲۰۱۷ کی رپورٹ میں اس کو "حالیہ دور میں پناہ گزیروں کی جبری واپسی کا دنیا کا سب سے بڑا غیر قانونی پروگرام" قرار دیا تھا ۔
سوال یہ بنتا ہے کہ کیا اب کے جب پچھلے پندرہ سالوں میں آدھے سے زیادہ افغان باشندے واپس مادرِ وطن جا چکے ہیں، تو کیا اس سے پاکستان میں مجموعی طور پر اور سندھ میں خصوصی طور پر انسانی ترقی میں کوئی خاطر خواہ یا قابلِ ذکر اضافہ ہوا؟ اگر سندھ میں آج بھی تقریباً ۲۰ فیصد پانچ برس کی عمر سے کم بچے شدید قلتِ غذائی اور تقریباً ۳۵ فیصد بچے شدیدسٹنٹنگ کا شکار ہیں، اگر ماوٗں اور حاملہ خواتین کی صحت کے تمام اعداد و شمار میں صوبہ سندھ باقی پاکستان کے اکثر علاقوں سے زیادہ پسماندہ ہے، اور سندھ کے تیس میں سے آٹھ اضلاع بحرانی لیول کی غذائی قلت کا شکار ہیں، اور جب کے آدھے سے زیادہ افغان اب ملک میں ہیں ہی نہیں تو یہ سوچنے کا مقام ہے کے ان ابتر حالات کا افغانوں کے یہاں ہونے یا نا ہونے سے کیا تعلق ہے۔
بلکہ ہم اگر اس سے بھی زیادہ مخصوص بات کریں تو اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں موجود کل افغان آبادی کا صرف ساڑھے پانچ فیصد سندھ میں ہے، جب کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ملا کر ۷۶ فیصد اور پنجاب میں ۱۴ فیصد ہے ۔ اسی طرح پاکستان کے محکمہٗ اعداد و شمار کے مطابق کراچی ڈویژن میں ۱۲۰۰۰۰ کے قریب اور حیدرآباد ڈویژن میں ۱۲،۶۰۰۰ کے قریب افغان بستے ہیں۔ اگر ہم یہ بھی مان لیں کے یہ سرکاری اعداد و شمار مثال کے طور پر انڈر کاوٗنٹنگ کی وجہ سے کم ہیں اور اصل تعداد اس سے دوگنی ہے، تب بھی ان ڈویژنز میں افغان کُل آبادی کے۱۰ سے ۱۵ فیصد سے زیادہ کہیں نہیں بنتے۔ سندھ کے دیگر علاقوں میں افغان باشندوں کا تناسب اکثر اس سے بھی کم ہے۔ اب اگر کُل پاکستان افغان آبادی کا ایک بہت ہی چھوٹا حصہ سندھ میں مقیم ہے اور یہ کسی بھی علاقے کی آبادی کا بمشکل ۱۰ فیصد حصہ ہیں، اور جب کہ ان میں ایک بڑی اکثریت کا تعلق غریب اور محنت کش طبقے سے ہے، تو یہ سوال اہم ہے کے اتنے سے افغان سندھ کے وسائل پر قابض یا سندھ کی وسیع تر محرومی کا باعث کیسے ہو سکتے ہیں۔
ہاں یہ بات درست ہے کہ پشتونوں اور افغانوں میں ایک محدود مڈل کلاس یا چھوٹا کاروباری طبقہ بھی ہے، جو اکثر مخصوص شعبوں میں زیادہ تناسب میں پائے جاتے ہیں جیسے کے ٹرانسپورٹ، ٹرک اور چائے ہوٹل وغیرہ۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کے پشتونوں کا فوج میں تناسب زیادہ ہونے کی وجہ سے اس ادارے میں ان کی رسائی زیادہ ہو۔ لیکن ان تمام عوامل کا تعلق کسی سازش سے کم اور مندرجہ بالا بیان کئے گئے ان ناہمواری کے پیٹرنز سے ہے جن کے تحت ادھر کی نوآبادیاتی اور بعد از نو آبادیاتی ریاست معیشت و سماج کا ارتقا ہوا ہے۔ اسی طرح جدھر ایک زمانے میں اردو سپیکنگ مہاجروں کا بیوروکریسی پر غلبہ تھا، بھٹو دور کی اصلاحات اور خاص طور پر اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی بیوروکریسی (بشمول پولیس میں) سندھی بولنے والے شہریوں کا ہجم خاطر خواہ طور پر بڑھا ہے۔
یوں جدھر دونوں قوموں یا کمیونٹیوں میں تضاد ممکن ہوتا ہے اس کا تعلق محنت کش طبقات میں پیشہ وارانہ درجہ بندیوں اور خاص طور پر متوسط اور پیٹی بورزژوا طبقات میں تجارتی، کاروباری، اور ریاستی لیول پر نا ہمواری اور فالٹ لائنز میں ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کے ۲۰۲۲ میں بلال کاکا کے قتل اور اس کے بعد سندھ میں سندھی پشتون کشیدگی کا معاملہ، ہائی وے پر ایک ٹرک ہوٹل اور اس سے پیدا ہونے والے بھتے پر تنازع سے شروع ہوا تھا۔ یوں جدھر ریاست و معیشتِ پاکستان محدود بنیادوں پر کھڑے ہیں، اور داخلی و عضویاتی طور پر نا ہمواری بھی پیدا کر رہے ہیں، اسی طرح محنت کش اور خاص طور پر متوسط طبقات کا اس وسیع تر محرومیت اور محدودیت کے سیاق و سباق میں گتھم گتھا ہونا کوئی حیران کن بات نہیں۔ لیکن یہ بات بھی عیاں ہے کہ افغان باشندوں کا سندھ کے وسائل پر قابض ہونا یا سندھ کی ڈیموگرافی کو تبدیل کرنے کے الزام کا ٹھوس حقائق سے کوئی خاص تعلق نہیں۔
مندرجہ بالا تفصیلات اور تجزیہ کی بنیاد پر اس نا ہمواری کو پیدا کرنے والے نظام سے لڑا ئی ، اس حوالے سے سٹریٹیجک اور ترقی پسندانہ حکمت عملی، اور اس معاملےپر مختلف کمیونٹیوں کی انٹیلیجینتشیا اور خاص طور پر ترقی پسندوں کے کردار کا احاطہ کرنا اہم ہو جاتا ہے۔
ریاست، ناہمواری، اور (غیر)منطقی لائحہٗ عمل
جیسے کے ہم اوپر بیان کر چکے ہیں، سرمایہ داری نظام اور خاص طور پر اس کی نو آبادیاتی و بعد از نو آبادیاتی اشکال لازم و ملزوم طور پر علاقائی اور جغرافیائی ناہمواری پیدا کرتے ہیں۔ پاکستان کے مخصوص کیس میں اس جغرافیائی عدم مساوات و تفریق کا معاملہ ایک طرف تو معاشی لیول سے مربوط طور پر جڑا ہوا ہے، تو دوسری طرف ریاست کی تزویراتی پالیسیوں کے بھی ذمے ہے۔ معاشی لیول پر نا ہمواری کا معاملہ ،کنال کالونیاں کی بنیاد، وسطی پنجاب، جی ٹی روڈ کے ارد گرد اور اس کے ساتھ کراچی کا معاشی ارتقا اور اس کی باقی ماندہ سندھ کے بنسبت ترقی، نو آبادیاتی دور سے ہی چلا آ رہا ہے۔ اور یوں شہری سندھ اور خاص کر کراچی بعد از نو آبادیاتی معاشی ترقی کا محور ہونے کی وجہ سے باقی ماندہ پاکستان سے محنت کشوں کی ہجرت کا گہوارہ بن گیا۔ دوسری طرف باقی علاقوں کی معاشی پسماندگی، زمین اور ملکیت کے بدلتے پیٹرن، اور انسانی اور قدرتی آفات نے بھی شہری سندھ کی طرف ہجرت کو تقویت بخشی ہے۔
ادھر دوسرا اور افغان و پشتون ہجرت کے حوالے سے اہم پہلو، کالونیل طرزِ حکمرانی کا ہے۔یوں جدھر برطانوی نو آبادیاتی دور میں آج کے پاکستان کا علاقہ اور خاص طور پر افغانستان سے متصل علاقوں کو ایک تزویراتی گریٹ گیم کا جائے وقوع بنا دیا گیا، اسی طرح ریاستِ پاکستان نے بھی نئے سامراج یعنی امریکہ کی علاقائی جنگوں میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفا دار کا کردار ادا کیا۔ اور یوں سامراج کی ایما پر اور اپنی لا محدودحکمت میں پاکستان کے عسکری اداروں اور جرنیلی افسر شاہی نے اپنی تباہ کن مہم جوئییوں کے لئے افغانستان اور پاکستان کے پشتون علاقوں میں پے در پے خون کی ہولیاں کھیلی ہیں۔ چنانچہ معاشی نا ہمواری کی بدولت پشتون و افغان ہجرت کو حکمران گٹھ جوڑ کی سیکیورٹی و خارجہ تباہ کاریوں نے مزید ہوا دی۔ چنانچہ پشتون و افغان ہجرت کے دونوں اسباب، یعنی کے معاشی و سٹریٹیجک، نو آبادیاتی معاشی و ریاستی نظام سے مربوط طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ جیسا کہ ہم نے مضمون کے پہلے حصے میں بیان کیا کے افغان مہاجرین کے خلاف ریاستی مہم اسی نظام کے حالیہ مگر عرصے سے پنپتے ہوئے بحران کا اظہار بھی ہیں۔
یوں اگر ہم لمحہ بھر کے لئے یہ مان بھی لیں کےسندھ میں افغان ہجرت ایک بہت اہم مسئلہ ہے (جو کہ اپنے آپ میں مشکوک اور قابلِ بحث ہے)، اور دوسری طرف اگر ہم یہ عیاں حقیقت بھی تسلیم کر لیں کہ افغان ہجرت کے تمام محرکات ریاست و معیشت کے داخلی و تاریخی تضادات سے جڑے ہوئے ہیں، تو یہ بات عقلی طور پرخلافِ منطق ہے کے اسی ریاست کی زبان بول کر اور اسی ریاست کا ہاتھ مزید مضبوط کر کے سندھ کے ترقی پسند اور قوم پرست حلقے افغان ہجرت کے معاملے کو حل کر لیں گے۔ یعنی کے اگر ہجرت کے معاملہ پر گرفت پانی ہی ہے تو براہراست طور پر سرمایہ داری کی معاشی نا ہمواری اور پاکستانی ریاست کی کالونیل طرزِ حکمرانی کو بدلنا اور چیلنج کرنا ہو گا ، یا کم سے کم اس بنیادی ڈھانچے اور اس سے جڑے عمل و روسش کو کمزور کرنا ہو گا۔
لیکن اس معاملے میں سندھ کے ترقی پسند اور قوم پرست حلقوں کی جانب سے اسی ریاست، اس کے نا ہمواری پیدا کرتے معاشی و اداریاتی ڈھانچے، اور اس کے جبری عمل و روش کو مزید مضبوط بنا کر ان ہی عوامل کے پیدا کئے افغان مہاجرین کے "مسئلے" کو کس طرح حل کیا جائے گا، یہ منطق اور حکمتِ عملی دونوں سے عاری ہے۔ بنیادی طور پر یہ ریاست کے ایک بازو کو مضبوط کر کے دوسرے بازو کو کمزور کرنے کی حکمتِ عملی ہے جو کسی بھی ٹھوس اور سمھ بوجھ والے تجزیہ اور سیاسی حکمتِ عملی سے مطابقت نہیں رکھتی۔
روشن خیال و ترقی پسند حلقے: عمومی دانشور یا عوامی دانشور؟
اس معاملے میں سندھ کے انٹیلیجینشیا، دانشور اور ترقی پسند حلقوں کا ایک کلیدی کردار ہے، جو اکثر مایوس کن ہی رہا ہے۔ اس میں اردو سپیکنگ اور سندھی بولنے والے لکھنے پڑھنے والے حلقے دونوں شامل ہیں۔ اردو سپیکنگ انٹیلیجینشیا نے تاریخی طور پر ایک تجریدی اور غیر جمہوری، غیر وفاقی پاکستانی و اسلامی قوم پرستی کو فروغ دے کر سندھ میں قومی سوال کو نظر انداز کیا ، بلکہ دبانے اور ماند کرنے کی کوشش کی۔ دوسرے پہل ایم کیو ایم کے دور میں مہاجر قوم پرستی کو محدود نظریاتی و عملی (اور جبری) بنیادوں پر استوار کیا گیا، جس کے تحت سندھ میں زمین اور شناخت سے جڑے قومی سوال کو فاشسٹ لائحہ عمل سے تقسیم اور حل کرنے کی کوشش کی گئی۔
دوسری طرف سندھی سپیکنگ مڈل کلاس اور خاص طور پر دانشور حلقے وقت کے ساتھ ساتھ پپلز پارٹی سے منسلک اکثر "لبرل" اور "ترقی پسند" چہرہ رکھنے والے اداریاتی ڈھانچوں میں ضم ہوئے ہیں (جیسے کے ٓارٹس کونسل، مختلف قسم کے "ثقافتی میلے" ، اور پریس کلب اور انسانی حقوق سے منسلک انٹیلیجینشیا)۔ یہ دانشور جدھر اکثر سماجی و سیاسی ایشوز پر پارلیمانی، جمہوری اور روشن خیال رائے دیتے پائے جاتے ہیں، ادھر ہی کلیدی مواقع پر یہ براہ راست یا بالواسطہ طور پر پی پی اور اس سے منسلک ریاستی پالیسیوں اور ڈھانچوں کی حمایت میں کھڑے نظر آتے ہیں (جیسے کے کچھ سال پہلے بہریہ ٹاوٗن کراچی پر عوامی مارچ اور ریاستی کریک ڈاوٗن کے وقت ہمیں نطر آیا تھا)۔
افغان مہاجرین کا سندھ میں کردار اور ریاستی بے دخلی کی پالیسی وہ حالیہ موقع ہے جدھر بظاہر روشن خیال و ترقی پسند دانشور ریاستی زبان اپنا کر، سندھ میں مزاحمتی شعور کو ایسی سمت دیتے ہوئے پائے گئے جو کمزور (یعنی پہلے سے بے دخل ہوئے مہاجرین) کے خلاف اور طاقتور (یعنی ریاست اور حکمران گٹھ جوڑھ) کی حمایت میں ہوتا ہے۔ یوں افغان مہاجرین کا معاملہ وہ اہم موڑ ہے جس پر سندھ میں قومی سوال کا شعور و عمل، دانشور طبقے کی تنگ نظری اور محدودیت کی بدولت، ریاست کے ساتھ مل کر اپنا تمام مزاحمتی کردار کھو بیٹھتا ہے۔
تقریباً ایک صدی قبل اطالوی انقلابی اور دانشور انٹونیو گرامشی نے اٹلی کے پسماندہ جنوبی علاقوں کی مڈل کلاس سے ابھرتے اور جاگیردار طبقے سے جڑے دانشوروں کا تجزیہ بھی کچھ ایسے ہی کیا تھا۔ یوں گرامشی نے ان دانشوروں کے تاریخی اور ساختیاتی کردار پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے یہ دکھایا تھا کہ یہ دانشور حضرات اطالوی جنوب میں عوام کو ریاستی و جاگیرداری ڈھانچے کے خلاف منطم کرنے کے بجائے عوام کو اسی اشرافیہ سے جوڑے رکھتے ہیں۔ یوں شمالی محنت کشوں اور جنوبی کسانوں مزارعوں کے پائیدار اتحاد کے بجائے یہ دانشور حقیقی طور پر جنوبی اٹلی میں ناہمواری اور قومی سوال کی حقیقت کو ماند کرنے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اور جنوبی عوام کو طاقت کے ڈھانچے میں ضم کرنے اور مخالف قوتوں کو منتشر کرنے کے نتیجے میں یہ بظاہر روشن خیال اور ترقی پسند طبقہ فاشزم کی راہ استوار کرتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کے گرامشی نے اپنے سوشلسٹ پارٹی کے ساتھیوں پر کڑی تنقید کی اور ساتھ ساتھ جنوبی اٹلی کی مایہ ناز شخصیت اور اپنے زمانے کے مشہور و معروف لبرل دانشور بینیڈیتو کروچے کو اشرافیائی اجارہ داری اور فاشزم کا "نا دانستہ علم بردار" قرار دیا تھا۔
اوپر دیئے گئے تجزئیے کے پیشِ نطر یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کے سندھ میں دانشور ، روشن خیال اور اکثر ترقی پسند حلقے، افغان مہاجرین اور دیگر معاملات کے ذریعے، عوامی مزاحمتی اور قومی شعور کو ریاستی ڈھانچے میں ضم کرنے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ عوامی رجحانات کو منتشر کر کے ریاستی ڈھانچے سے جوڑنے کا یہ کردار الٹا حکمران گٹھ جوڑھ سے منسلک نظام اور ریاست کو مضبوط کرتا ہے اور یوں مزید اس ناہمواری کا باعث بنتا ہے جس نے پہلے طور قومی جبر ، مختلف اقوام کی آپس میں کشیدگی، اور افغان ہجرت جیسے مسائل کو جنم دیا ہوتا ہے۔ یوں اپنی بیان کی گئی پوزیشنز اور انفرادی روشن خیالی کے برعکس ان حلقوں کا سندھ کی سیاست میں ساختیاتی کردار معروضی طور پر دقیانوسی، رججعت پسند ، اور رائج مقتدرہ کے حق میں ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کے سمجھ بوجھ رکھنے والے اور دیانتدار ترقی پسند مڈل کلاس دانشور اور سیاسی کارکن سماج اور ریاستی نظام میں اپنے ٹھوس کردار کو سمجھیں اور اس کی ذمہ داری لیں۔ اکثر متوسط طبقے میں پائے جانے والے تعصبات و تصورات (مندرجہ بالا بیان کی گئی معروضی سماجی فالٹ لائنز کی وجہ سے) عوامی لیول پر پنپنے والی روز مرہ کی زندگی اور پاپولر یکجہتیوں کے برعکس ہوتے ہیں۔ یوں ہمارے کارکنان، سوچنے سمجھنے اور لکھنے والوں کو عمومی دانشوری سے آگے بڑھ کر عوامی دانشور بننا ہو گا۔
اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کے سب محنت کش خود کار طور پر ایک ہیں یا ہو جائیں گے، یا پھر ان کے درمیان ایکائی قائم کرنا ایک سیدھا سادھا کام ہے۔یہ ہی وجہ ہے کے ترقی پسند کارکنان اور انٹیلی جینٹشیا کا کردار بلکل کلیدی ہے۔ اور وہ یہ کے وہ ناہمواری، ہجرت، اور قومی جبر کے محرکات اور ان کی بنیادوں کو ٹھوس طریقے سے سمجھیں اور عوام کو سمجھایئں۔ یہ کے وہ مختلف قوموں اور کمیونٹیوں کے زمین کے ساتھ مختلف تاریخی رشتوں اور وابستگیوں کو پہچانیں، اور ساتھ ساتھ اپنے لوگوں میں دوسری قوموں کے خلاف تعصبات اور نفرتوں سے لڑیں۔
یوں یہ ایک ہوائی یا تجریدی یکجہتی نہیں ہو گی۔ بلکہ یہ وہ فکری اور عملی جدوجہد ہے جس کے ذریعئے ہم معروضی و موضوعی فرق کو جانتے پہچانتے ہوئے متنوع محنت کش پرتوں میں ایک ٹھوس اتحاد ("کانکریٹ یونیٹی") بنا سکتے ہیں۔ ہمارے قومی خطوں، خاص کر سندھ، کی ٹھوس حقیقت اب متعدد عوامل اور تواریخ سے پنپتے ایک متنوع سماج کی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کے قومی سوال و تضاد ختم ہو گیا ہے۔ بلکہ ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ اس فرق میں پنپتے سماج اور اس کے سوالات کو دیانتداری ، ترقی پسند انہ اور عوام دوست لائحہ عمل سے حل کیا جانا نا گزیر بن چکا ہے۔ یوں ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کے ہم متفرق و متنوع رجحانات کو پہچانتے ہوئے عوامی اور عملی سطح پر وہ ٹھوس مربوطیت و اتحاد کے نقاط ڈھونڈیں جن کے تحت ہم اپنے وسیع تر دشمن کے خلاف یکجہتی قائم کر سکیں اور اس کے جنم دئیے گئےسماجی و جغرفیائی ناہمواری اور کالونیل طرزِ حکرانی کو اکھاڑ پھینکیں۔اگر ہم یہ کرنے میں نا کام ٹھہرتے ہیں تو ریاست، اس کا عدم مساوات پھیلاتا نظام، اور اس سے براہ راست اور بالواسطہ جڑے دانشور اس کو فسطائی سطور پر استوار کرتے رہیں گے۔
سندھ میں قومی سوال کی حقیقت کو پاکستانی قومیت، لبرل انسان پسندی یا ایک میکانکی طبقاتی یکسوئیت کے ذریئعے نہیں حل کیا جا سکتا۔ بلکے یہ ایک ایسا سیاسی و فکری عمل ہے جو مختلف قوموں اور کمیونٹیوں کی مخصوص تواریخ، سماجی و زمینی رشتوں اور جذبات کو سمجھتے ہوئےان میں سے بذریئعہ جدوجہد عوام دوست، ترقی پسندانہ پرتوں کو استوار کرے۔ یہ وہ ٹھوس آفاقیت ("کانکریٹ یونیورسلزم") ہے جو نظام میں پنپتے متنوع رجحانات اور تفریق کو جانتے پہچانتے ہوئے وجود میں آئے۔ یہی حقیقی طور پر "اتحاد بمع اور بذریعہ تفریق" (یونیٹی وِدِن ڈسٹنکشن") یعنی کہ ایک جدلیاتی سیاسی عمل ہے۔
ایاز ملک سیاسی تبصرہ نگار ہیں اور عوامی ورکرز پارٹی کراچی کے ممبر ہیں
Note: An English translation of this article is available here