مزاحمت کا ایک لازوال کردار: نامور محقق اور تاریخ نویس گل حسن کلمتی

گل حسن کلمتی ۲۰۲۳۔۱۹۵۷ نے اپنی زندگی سندھ کی دھرتی اور اس کے باسیوں کے لئے وقف کر کے عوام دوست علم و فکر اور سیاسی جدوجہد کی عظیم میراث قائم کی ۔


گل حسن کلمتی، سندھ کے ایک مایہ ناز تاریخ دان، سیاسی کارکن اور عوامی دانشور جو کچھ عرصہ علالت کے بعد اس سال ۱۷ مئی کو چل بسے ۔ تصویر: بزنس رکارڈر 

  چند سال قبل کراچی آرٹس کونسل میں 'سسی کے راستے' کے موضوع پر ایک پروگرام ہو رہا تھا۔ مقررین میں گل حسن کلمتی بھی تھے۔ بقول سندھی صحافی دودو چانڈیو، گل حسن کلمتی نے اپنی تقریر میں بیان کیا کہ سسی نے بھنبھور سے جو راستہ اپنایا تھا وہ ملیر سے ہوتے ہوئے کراچی پر نکلا تھا، آج اسے بحریا ٹاؤن کہتے ہیں۔ پروگرام کے میزبان نے بحریا ٹاؤن کا نام لینے پر اعتراض کیا تو گل حسن نے ہنس کر جواب دیا کہ "ایسا کریں کہ بحریا ٹاؤن کے اوپر سے ایک پل بنا دیں جہاں سے میں سسی کو مکران کی طرف جانے کا کہوں"۔
کئی ادیب یا تاریخ نویس اپنے قلم کے ذریعے لوگوں کا شعور بیدار کرتے ہیں۔ مگر ایسے کم ہی کردار ہیں جو نہ صرف قلم بلکہ عمل کے میدانِ مزاحمت میں بھی صف اول میں ہوں۔ نامور محقق اور تاریخ نویس گل حسن کلمتی ایسے کرداروں میں ایک تھے جنہوں نے سندھ میں بزنس ٹائیکون ملک ریاض کے بحریا ٹاؤن کے خلاف عوامی مزاحمت کا آغاز کرنے کے ساتھ ساتھ قلم کے ذریعے بھی مزاحمتی کردار ادا کیا۔ 
گل حسن کلمتی گزشتہ ایک سال سے کینسر کے عارضے میں علیل تھے۔ آج حکومتِ سندھ کلمتی کی وفات کے بعد انہیں سندھ اسمبلی میں خراج تحسین پیش کر رہی ہے، جبکہ اسی حکومت نے دو سال قبل بحریا ٹاؤن کے خلاف تحریک کی پاداش میں بغاوت کا پرچہ کاٹ کر گل حسن کو دہشتگرد قرار دیا تھا۔  یہی حکومت اور اس کے وزرا ملیر کے لوگوں سے غداری کر کے ملک ریاض کا ساتھ دے رہے ہیں۔ شاید انہیں علم نہیں کہ آج وہ جس شخصیت کا کو سراہ رہے ہیں وہ بھی ملیر کا ہی باشندہ تھا، جو اپنے لوگوں سے جڑا ہوا تھا، اور ان کے حقوق کی جنگ لڑ رہا تھا۔ 

سیاسی سفر

گل حسن کلمتی کا جنم 5 جولائی 1957 کو گڈاپ کے ایک چھوٹے گاؤں عرضی بلوچ میں ہوا۔ اس وقت گڈاپ ضلع ٹھٹہ میں تھا۔ ایوب آمریت کے دوران گڈاپ سمیت کئی یونین کونسلوں کو کراچی میں شامل کیا گیا۔ کلمتی نے ایس ایم آرٹس کالج سے تعلیم حاصل کرکے کراچی یونیورسٹی سے جرنلزم میں ماسٹرز کیا۔ اور اس کے بعد سندھی ادب میں بھی ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ طالب علمی کے دور میں ہی لکھنا شروع کیا۔ کالج میں انہوں نے سماج کی تبدیلی کے لیے سندھی ادبی سرکل قائم کیا اور کالج کے میگزین میں سندھی ادب پر لکھا۔ ایسے ہی ان کے مضامین روزناموں میں شائع ہونے لگے۔
کلمتی کا سیاسی سفر کراچی یونیورسٹی سے ء1979 میں شروع ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا نافذ کر کے سیاسی کارکنوں کی قید و بند اور تشدد کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ جہاں کئی لوگ چھپ کر اپنی جان بچا رہے تھے وہیں گل حسن نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) کے سرگرم کارکن بن کے طلبہ کے حقوق کیلیے لڑ رہے تھے۔
 سنہ 1983ء میں گل حسن نے این ایس ایف چھوڑ کر بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) میں شمولیت اختیار کی اور اپنا سیاسی سفر جاری رکھا۔ مگر کچھ اختلافات کی وجہ سے انہوں نے بی ایس او کو خیرباد کہہ کر سندھ کی قدآور سیاسی شخصیت رسول بخش پلیجو کی عوامی تحریک میں بطور ہمدرد سیاسی کام جاری رکھا۔ رسول بخش پلیجو دورِ ضیاء سمیت مختلف اوقات پر 11 سال جیل میں رہے۔ وہ ایک مقبول رہنما تھے جو ڈنکے کی چوٹ پر سندھ کا کیس مارکسی انداز میں رکھتے تھے۔ بی ایس او سے کلمتی کی علیٰحدگی کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ صرف بلوچستان کی بات کر رہے تھے، جبکہ سندھ کے مسائل پر باظابطہ سیاست نہیں کر رہے تھے۔ 
بعد ازاں اسی ضیاء مارشل لا کے دور میں کلمتی نے جیئے سندھ محاذ میں شمولیت اختیار کی، جس کے چیئرمین عبد الواحد آریسر تھے۔ آریسر معروف سندھی سیاسی لیڈر جی ایم سید کے ساتھی رہے ہیں اور کئی کتابیں بھی ساتھ لکھیں ۔ 
جیئے سندھ محاذ کے سائیں جی ایم سید نے 1973ء میں آزاد سندھو دیش کا اعلان کر کے جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ اس وقت سے ایک علیٰحدہ وطنِ سندھ ان کا سیاسی مطالبہ رہا ہے۔ گل حسن کلمتی نے اس وقت جیئے سندھ میں شمولیت اختیار کی جب جیئے سندھ کے مختلف دھڑے نہیں بنے تھے مگر وہ جلد ہی اس تنظیم سے نکل کر سندھ ترقی پسند پارٹی کا حصہ بنے۔ ایس ٹی پی ایک قوم پرست جماعت ہے جو جیئے سندھ محاز سے قادر مگسی کی سربراہی میں ایک دھڑا بن کر نکلی۔ یہ بذریعہ انتخابات سندھ کی خودمختاری اور حقوق چاہتے ہیں۔ کلمتی نے کراچی کی مضافاتی علاقوں میں سندھ ترقی پسند پارٹی کو مضبوط کیا۔ گڈاپ، ملیر، جوکھیو گوٹھ، سچل، اور دیگر سندھی اکثریت علاقوں میں کام کیا۔ لوگوں کو ان کے مقامی مسائل اور زمینوں کے مالکانہ حقوق دلانے کی بنیاد پر منظم کیا۔
 چند سال ایس ٹی پی میں رہ کر کلمتی نے کسی جماعت کا حصہ بننے سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور اپنا تمام وقت تاریخ نویسی کو دینے کا فیصلہ کیا۔ البتہ گزشتہ دس سال سے انہوں نے عوامی ورکرز پارٹی کی جدوجہد میں بھی ساتھ دیا۔

 گل حسن کلمتی بائیں بازو کے قابل احترام رہنما مرحوم کامریڈ یوسف مستی خان کے ہمراہ۔ تصویر: حفیظ بلوچ 

کراچی ۔ سندھ کی ماروی

گل حسن کلمتی کی سب سے بڑی پہنچان ان کا عظیم تحقیقی کام ہے جس کے تحت انہوں نے سندھ بالخصوص کراچی کی تاریخ پر بہت زیادہ معلومات اکٹھی کی۔ شاہ عبدل لطعف بھٹائی کے رسالے ک الازوال کردار سسئی اپنے محبوب پنہوں کی تلاش میں اپنے شہر بھنبھور سے نکل کر دشوار رستوں پہاڑوں اور ریگستانوں کا پیدل سفر کرتے ہوے اپنی منزل تک پہنچتی ہے۔  کلمتی نے خود بھنبھور سے مکران تک سسئی کے راستوں پر تحقیق کی اور سندھ سے بلوچستان کا سفر کیا۔ 
 دودو چانڈیو لکھتے ہیں کہ "نہ صرف کوہستان بلکہ لسبیلا تک بسے دھرتی کے باسیوں کی تمام تاریخ کو سرکاری ادارے اربوں رپوں کی بجٹ خرچ کر کر بھی ڈاکیومینٹ نہ کر سکے۔ اس ساری تاریخ کو اس فقیرمنش انسان گل حسن کلمتی نے پیدل چل کر محفوظ کیا"۔ کلمتی نے نہ صرف کراچی بلکہ سندھ کی تمام سمندری پٹی (کوسٹل بیلٹ) کا سفر کیا۔ وہ ہنگلاج سے سسی کے قیام والی جگہ تک پہنچ کر اس جزیرے پر بھی گئے جہاں اطلاعات کے مطابق انگریزوں کے خلاف جنگ لڑنے والے سورہیہ بادشاہ کی لاش دفن ہے۔

کلمتی کی سنگ میل کتاب “کراچی سندھ جی مارئی” میں انہوں نے ایک جامع انداز میں کراچی کی عوامی تاریخ رقم کی ہے۔ تصویر: ڈان

 کلمتی نے کراچی کو سندھ کی ماروی کا لقب دیا۔ ماروی بھٹائی کے رسالے کا ایک اور لازوال کردار ہے، جس کی اپنی دھرتی سے محبت کی لازوال کہانی ہے- کراچی کے چپے چپے میں کلمتی نے خود مشاہدہ اور مطالعہ کر کے کراچی کی وہ عوامی تاریخ لکھی جو پہلے کبھی نہیں لکھی گئی تھی۔ انہوں نے اس تاریخ کو مستند ڈاکیومنٹ کی صورت میں رقم کیا جو کئی کتابوں کے طور پرشائع ہوئی۔ ان میں کراچی کے تاریخی و ثقافتی مقمامات، بندرگاہوں، قدیم عمارتوں، روڈ راستوں، اور کراچی شہر کو بنانے میں اہم کردار ادا کرنے والے ہیروز کی تاریخ محفوظ ہے۔ کلمتی کہا کرتے تھے کہ جدید کراچی کو تعمیر کرنے والے اصلی معماروں کو یاد ہی نہیں کیا جاتا، جن میں ہندو، پارسی، مسلمان اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے کئی افراد شامل تھے۔ انہوں نے ہر چند رائے، جی ایم سید، جمشید نسروانجی، ہاشم گزدر، میر چاکر، میر ایوب عالیانی اور مولانا محمد صادق سمیت کئی شخصیات کی تاریخ کو اجاگر کیا۔ 
کتاب "کراچی سندھ جی مارئی" (اردو میں "کراچی سندھ کی ماروی") کلمتی کی  تحقیقی کاوشوں کا نچوڑ ہے۔ اس میں انہوں نے کراچی کے دیہی آبادیوں کی تاریخ  بھی لکھ کر تمام سندھ کو وسیع معلومات دی۔ کراچی کے دھرتی باسی جو اس شہر کے قدیم رہائشی تھے، ان انڈیجینس لوگوں کی زندگی، اور کراچی کے دیگر تاریخی مقامات اور یونین کونسلوں کے بارے میں لکھا۔ اس کتاب کا اردو اور انگریزی زبانوں میں ترجمہ بھی شائع ہوا اور گل حسن کلمتی کو کئی اعزازات سے نوازا گیا جن میں ڈاکٹر نجم عباسی ایوارڈ، سوجھرو ایوارڈ اور نیشنل بینک آف پاکستان کے لسانی ایوارڈ شامل ہیں۔ 
اس کتاب میں کلمتی لکھتے ہیں کہ ایمپریس مارکیٹ آج جہاں پر ہے وہاں سنہ 1870ء تک ایک بڑا میدان تھا۔ 1849ء میں اس علاقے کے پاس انگریزوں کا ملٹری کیمپ قائم ہوا۔ کچھ عرصے بعد صدر بازار جس کو انتظامی طور پر صدر کوارٹرز کہا جاتا تھا، برٹش کنٹونمنٹ کی ضرورت پوری کرنے کیلیے قائم کیا گیا۔ کمیونٹی ہال، کتاب گھر، جیم خانا، چرچ، پارسیوں کے کمیونٹی ادارے، شراب خانے اور بلیئر ڈروم تھے۔
کراچی میں انگریز حکومت نے سنہ 1857ء کی جنگ آزادی کو شکست دینے کے بعد باغی ہندستانی سپاہیوں پر شدید تشدد کیا۔ موجودہ ایمپریس مارکیٹ اسی جگہ پر تعمیر شدہ ہے جہاں 13 اور 14 ستمبر 1857ء کی رات اکیسویں رجمنٹ کے باغی سپاہیوں کو توپوں کے منہ سے باندھ کر اڑایا گیا۔ یہاں پھانسی گھاٹ قائم کر کے کئی سپاہیوں کو پھانسی پر بھی لٹکایا اور شہداء کا خون گلیوں میں بہا۔ اس واقعے کے بعد سینکڑوں لوگ اس جگہ کو دیکھنے اور شہدا کو خراجِ تحسین پیش کرنے آتے تھے۔ اسی لئے یہاں ایمپریس مارکیٹ کو تعمیر کیا گیا تاکہ ادھر ان شہداء کی کوئی یادگار نہ بن جائے۔  ہم وہ بے حس قوم کے فرد ہیں جو ان کی یادگار بنانا تو دور کی بات ہم ان کی قربانیوں کو بھی بھلا چکے ہیں جنہوں نے سامراجیت کے خلاف دل و جان سے جدوجہد کی۔ 

سیاسی جدوجہد 

قابلِ رشک بات یہ ہے کہ کلمتی نے نہ صرف کراچی کی قدیم آبادیوں کی تاریخ لکھی بلکہ اپنی علمی کاوشوں کو عملی جامہ پہناتے ہوےٴ ان علاقوں کے موجودہ رہائشیوں کو آپس میں اکھٹا بھی کیا اور مضبوط بنایا۔ یہی وجہ تھی کہ ان علاقوں میں زوردارمزاحمت دیکھنے میں آئی۔ کراچی کے گوٹھوں کو بچانے اور مقامی لوگوں کی زمینوں پر قبضے سے نجات دلانے والی تحریکیں کلمتی کی انتھک محنت کی واضح مثالیں ہیں۔ 
کلمتی کی زندگی کا دوسرا بڑا کام سندھ میں بحریا ٹاؤن کے خلاف تاریخی جدوجہد ہے۔ سنہ 2015ء جب سینکڑوں تاریخی اور قدیمی گوٹھوں کو مسمار کر کے بحریہ ٹاؤن بنانے کا منصوبہ شروع ہوا تو گل حسن کلمتی خاموش نہیں بیٹھے۔ وہ ایک نئے جوش و جذبے سے اس استعماریت کے خلاف کھڑے ہوئے اور سندھ انڈیجیئنس رائٹس الائنس کا قیام کر کے ایک منظم مزاحمت شروع کی۔ ۔ اس الائنس کی جدوجہد مقامی لوگوں کے گوٹھوں کو محفوظ کرنے، ثقافتی اور قدیمی مقامات کو محفوظ کرنے اور بحریا ٹاوٗن جیسے منصوبوں کے نتیجے میں ماحولیاتی بربادی کو اجاگر کرنے پر مرکوز تھی۔ کلمتی نے کئی پروگرام مضامین اور تقاریر میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف کھل کر بات کی۔ آخری دم تک وہ اس الائنس کا حصہ رہے۔

گل حسن کلمتی سندھ انڈیجینس رائٹس الائنس کے بانی رہے جس کے تحت سندھ کی بستیوں  گوٹھوں
اور ماحولیات کے تحفظ کے لئے مضبوط تحریک چلائی۔  

 سندھ انڈیجینئس رائٹس الائنس کی بنیاد رکھنے والوں میں کامریڈ یوسف مستی خان، خدا ڈنو شاہ، حفیظ بلوچ سمیت گل حسن کلمتی بھی تھے۔ ان کے ساتھی حفیظ بلوچ کہتے ہیں کہ جب بحریا ٹاؤن انتظامیہ مختلف گوٹھوں کو خالی کرا کر لوگوں کو بے دخل کر رہی تھی، اس وقت گل حسن کلمتی ہر متاثر فرد کے پاس گئے اور انہیں یقین دہانی کرائی کے اس ظلم کے خلاف ہم آپ کے ساتھ ہیں اور ہم مل کر اس استحصال کے خلاف لڑیں گے۔
گل حسن کلمتی سپر ہائی وے پر موجود اکوافینا کمپنی کے مزدوروں کی تحریک میں بھی صف اول رہے۔ کامریڈ یوسف مستی خان، عثمان بلوچ، حفیظ بلوچ سمیت گل حسن نے اس کمپنی کے خلاف کئی احتجاجی مظاہرے کیے اور بعد میں عدالت میں پٹیشن دائر کروایا، جس کے بعد بلاآخر مزدوروں کے حق میں فیصلہ دیا گیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب کامریڈ یوسف مستی خان علیل تھے اور تھوڑے عرصے بعد وہ بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ 
پانی کی کمپنی اکوافینا ملیر کی حدود میں واقع ہے۔ پہلے اس علاقے میں زراعت بہت اچھی ہوتی تھی، ہرے بھرے باغات تھے۔ جب سے اکوافینا کمپنی بنی، پھر بحریہ ٹاؤن بنایا گیا اور ملیر ایکسپریس وے تعمیر کیا گیا تو ہرا بھرا ملیر اپنی رونقیں چھوڑ گیا، لوگ دربدر ہو گئے، ماحولیاتی نقصان ہوا۔ ان تمام عوام دشمن منصوبوں کے خلاف سندھ انڈیجیئنس رائٹس الائنس شروع دن سے تحریک میں رہا، اس الائنس میں گل حسن کلمتی بھی ساتھ رہے۔

کراچی کے مضافات میں  بحریا ٹاوٗن پراجیکٹ۔ سنہ ۲۰۲۱ء میں کراچی انڈیجینس رائٹس الاٗنس اور دیگر تنظیموں
نے اس پراجیکٹ کے خلاف بھرپور احتجاج کیا جس پر پولیس کی طرف سے تشدد کیا گیا۔ تصویر:
عرب نیوز

صحافتی اور ادبی کام

سیاست اور علمی تحقیق کی طرح گل حسن کلمتی صحافت سے بھی عمر بھر وابستہ رہے۔ سندھی روزنامہ عوامی آواز میں لکھنا شروع کیا۔ سندھ کے سمندری جزیروں پر تحقیقی اور تخلیقی کام کیا۔ اس موضوع پر ان کی کتاب ایک اتھارٹی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب میں سندھ کے جزیروں پر بسے ماہی گیروں کی زندگی کو عکس کیا گیا ہے۔ ہر ایک جزیرے پر رہنے والے ماہی گیروں کی آبادیاں، جزیرے کی ایراضی، ماہی گیروں کے سیاسی و سماجی مسائل، صحت اور تعلیم کے موضوعات پر تفصیلی تحریریں ہیں۔ اسی کتاب میں سمندر کی ماحولیات اور تبدیلیوں پر بھی بحث کی گئی ہے۔ 

کلمتی نے انڈس ڈیلٹا اور سندھ کے کوسٹل بیلٹ پر
بسنے والے لوگوں کی تاریخ، ثقافت، سیاست
سماجیات اور ماحولیات پر وسیع تحقیق کی اور کئی
تحاریر شائع کیں۔ تصویر:
گل حسن ویب سائٹ

کلمتی لکھتے ہیں کہ ڈنگی اور بھنڈار جزیرے سندھ کی ڈیلٹا میں 350 سے زائد جزیروں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان دو جزیروں پر اب سیف سٹی نامی جدید شہر کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اس منصوبے کے بعد دیگر تمام جزیروں پر قبضے کیلیے راستہ ہموار ہو جائے گا۔ اس کے نتیجے میں سندھ کے ماہی گیروں سے مالکانہ حقوق چھینے جائیں گے۔ ساحل کو آلودگی سے نقصان پہنچے گا اور سمندر کی طرف جانے والے ماہی گیروں کے راستے بند ہو جائیں گے۔ 
اس کے علاوہ کلمتی وہ واحد شخصیت ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں جنہوں نے سندھ میں بدھ مت کی باقیات اور شاہ عبد الطیف بھٹائی کے تکیہ 'آرام گاہ' کی نشاندھی کی۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ اہم اور لاثانی مقامات اب بحریہ ٹاؤن کی تعمیرات میں دفن ہوگئے ہیں۔ کراچی میں گڈاپ کی پہاڑیوں میں پتھروں پر نقش نگاری کے مقام بھی دریافت کیے جس پر انہوں نے طبع آزمائی کی۔ 
گل حسن کلمتی شاہ بھٹائی کا کردار کہوڑی تھا۔ جو نہ سردی دیکھتا تھا، نہ گرمی۔ راستے میں کتنی بھی مشکلات آ جائیں، اپنی منزل تک پہنچنا ان کا مقصد ہوتا تھا۔ انہوں نے سندھ سے بلوچستان تک اور پاکستان کے طول وعرض میں کالاش کے پہاڑوں سے سندھ کے سمندری جزیروں تک سفر کر کے ایک انسان دوست تاریخ رقم کرنے اور منظرِ عام پر لانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے اور درجنوں کتابیں اور مضامین تحریر کی ہیں۔
گل حسن کلمتی جیسے کردار نایاب ہیں جنہوں نے تحقیقی وادبی کام کے ساتھ دھرتی اور اس کے باسیوں کے حقوق کیلیے بھی بھرپور جدوجہد کی۔ وہ اپنی دھرتی سے وفاداری کا کھلا عملی مظاہرہ تھے۔ گل حسن کلمتی شہرِ کراچی کی زندہ انسائیکلوپیڈیا سے کم نہیں تھے۔ وہ اس شہر کے سچے عاشق تھےأ ان میں کچھ کرنے کا جنون تھا، ایک نئی تاریخ رقم کرنی تھی، اور یہ سب انہوں نے اپنی مختصر زندگی میں کر دکھایا۔ کر کے دکھایا۔ اس سال ۱۷ مئی کو گل حسن کلمتی کچھ عرصہ علالت کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوے۔ مگر اپنے بعد وہ ایک ایسا علم کا خزانہ چھوڑ گئے جس کی آج تک سندھ میں شاید ہی کوئی مثال ہو۔
! لال سلام کامریڈ

رحمت تونیو ملٹی میڈیا صحافی ہیں جو سندھ کی سیاست اور ماحولیات پر خاص نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے سندھ

مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کراچی سے میڈیا سٹڈیز میں ماسٹرز کیا ہے۔

Previous
Previous

You Are Not Welcome Here: Race and Hostility in Britain’s Fast Fashion Industry

Next
Next

A Life of Resistance: Activist-Historian Gul Hassan Kalmati